سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فل کورٹ براہِ راست سماعت جاری ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے پہلے عدالتی دن فل کورٹ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے پہلے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ تاخیر کے لیے معذرت چاہتا ہوں، فل کورٹ اجلاس چل رہا تھا، جس میں فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری ٹی وی پر مقدمہ لائیو نشر کرنے کا پائلٹ تجربہ کیا جائے، ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو براہِ راست نشریات کے ممکن یا ناممکن ہونے کا جائزہ لے گی، ہم میں سے بینچ کے کچھ ممبران کیس پہلے سن چکے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ معاملہ سنا ہی نہیں۔
فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں قابل سماعت قرار
اس موقع پر عدالتِ عظمی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 درخواستیں ہیں اور وکلاء کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب! آپ دلائل کا آغاز کریں، دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں، فل کورٹ اجلاس میں فل کورٹ سماعت کرنے کی منظوری دی گئی، عوام ہم سے 57 ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں، خواجہ صاحب! ہم آپ کو نہیں کہتے کہ کم بولیں مگر آپ بات کو جامع رکھیں، ماضی کو بھول جائیں، ابھی کی بات کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہو گا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسر سائز نہیں ہو گی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ ہم شروع کرتے ہیں، ایکٹ پڑھا جائے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے ماضی کے حوالے سے دلائل جاری رکھے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ خواجہ صاحب! یہ عوامی وقت ہے، ایسے نہ کریں اور ایکٹ پڑھیں، سیکشن 2 میں مت جائیں اور پورا ایکٹ پڑھیں، وہ الفاظ مت بولیں جو ایکٹ میں موجود نہیں۔
جسٹس سردارطارق نے کہا کہ خواجہ صاحب! مہربانی کر کے قانون پڑھ لیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ قانونی نکات کی طرف آئیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب! اپنے دلائل مرتب کریں، ہر سوال کا جواب فوری مت دیں، اپنے معاون کو کہیں عدالت کے سوالات نوٹ کر لے، جب سوالات سمجھ لیں تو ایک ہی بار جواب دیجیے گا۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کیا کہتا ہے؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں؟ آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول 4 کے مطابق سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ضوابط خود بناتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں، جواب بعد میں دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ خواجہ صاحب! آئینی شقوں کو صرف پڑھیں، ان کی تشریح نہ کریں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب! آپ جو باتیں کر رہے ان پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں، میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہ رہا ہوں، لگتا ہے آپ ایسا نہیں چاہ رہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ آپ یہ سوال نوٹ کر لیں، سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980ء آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل کی قانون سازی کے لیے درخواست دائر کر دیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور ہے، عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ہے، اگر پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط، میں یہ سمجھا ہوں آپ کی بات سے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس شق پر آپ کو اعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا لا محدود اختیار ہو تو آپ مطمئن ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ یہ تو بتائیں کہ کس آئین کے آرٹیکل سے ایکٹ متصادم ہے؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بنا سکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دے کر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور پسِ پشت ڈال سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے؟ پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔